Wednesday, November 10, 2021
Love poetry
سینے سے لگائیں تمہیں ارمان یہی ہے
Monday, October 18, 2021
اُس دیس کے ہر ایک حاکم کو سولی پہ چڑھانہ واجب ہے
جی دیس سے مائوں بہنوں کو
اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکو پہ بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر
پولیس کے نا کے ہو تے ہوں
جس دیس کے مندر مسجد میں
ہر روز دھماکے ہو تے ہوں
جس دیس میں جاں کے رکھوالے
خود جانیں لیں معصومو کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکی نہ سنیں مظلوموں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں
آہیں نہ سنیں معصومو کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں
ہر سمت فا حاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی
چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا
بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پہ
دو چار بھکاری پھر تے ہوں
جس روز جہازوں سے
امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت مائوں
بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفا سے
ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس میں عہدداروں سے
عہدے نہ سمبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ہی ٹالو جاتی ہو
اُس دیس کے ہر ایک لیڈر پہ
سوال اٹھانا واجب ہے
اُس دیس کے ہر ایک حاکم کو
سولی پہ چڑھانہ واجب ہے
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے
ہوش میں آ چکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے
رونق بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے
شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے
ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھر سکے
سن کے یقین کر سکے جا کے انہیں سنا سکے
عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست
اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آ سکے
اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے